Digital
میں حسنِ آخری باغِ دگر کا
میرا مقصودِ ہنر ہے
آفتابِ تازہ و تاباں پہ اِس سوزِ یقیں کو باندھنا
جو بھی حدِ ادراک میں آئیں
اُنہیں روشن کرو
نورِ ہنر سے
جس پہ وہ تہذیب در تہذیب کے نوحہ کناں سب
دھات کی صورت پگھل کر
راستہ ہموار کر دیں گے
جہانِ بے بیاں کا
جو کہ شور و شر سے کوسوں دور ہے
مشہور ہے
سیماب فطرت کے لئے جائے اماں کے طور پر
فردِ جہانِ بے بیاں
جذبات اور احساس کی تکمیل میں
تعلیم کی تقسیم اور تفہیم کو
تعظیم دے کر
یہ بتاتے ہیں کہ جو عریاں کِرن کو زیبِ تن کر لے
وہ شاخِ ارغواں ہو جاتا ہے
جس کی مہک رستہ دکھاتی ہے
بھٹکتے کائناتی قافلوں کو
اور بتاتی ہے
مقامِ گفتگو چھن بھی گیا تو کیا
حسیں لمحات کی تم ویڈیو اپلوڈ کر دو

توحید زیب

Posted in

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started